بلدیاتی انتخابات اور الیکشن کمیشن کی آئینی زمہ داریاں

Date:

تحریرجی ایم ایڈوکیٹ

کیا الیکشن کمیشن کے پاس بلدیاتی انتخابات کرانے کا اختیار ہے اور کیا اسے جنرل انتخابات ملتوی کرنے کا قانونی اختیار حاصل تھا؟ یہ دونوں سوالات بظاہر سادہ مگر درحقیقت گلگت بلتستان کے آئینی، قانونی اور جمہوری ڈھانچے سے جڑے بنیادی سوالات ہیں، جن کے جوابات محض سیاسی بیانات میں نہیں بلکہ آئین اور قانون کی صریح دفعات میں تلاش کیے جانے چاہئیں۔ سب سے پہلے یہ حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ پاکستان کا 1973 کا آئین گلگت بلتستان میں نافذ نہیں بلکہ یہاں کا آئینی فریم ورک گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018 ہے، اور پورا انتظامی، سیاسی اور انتخابی نظام اسی آرڈر کے تحت چلتا ہے۔ جنرل انتخابات کے معاملے میں اگر گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018 کا مطالعہ کیا جائے تو آرٹیکل 97 میں صرف چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان کی تقرری اور حلف کا ذکر ہے، اس کے علاوہ جنرل انتخابات کے شیڈول یا اس میں تبدیلی کے حوالے سے کوئی تفصیلی اختیار اس آرڈر میں درج نہیں۔ تاہم انتخابی عمل کے عملی پہلوؤں کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 قابلِ اطلاق ہے۔ اس ایکٹ کا سیکشن 58 انتخابی پروگرام میں ترمیم سے متعلق ہے، اس کے سب سیکشن 1 کچھ اس طرح ہے (1) دفعہ 57 میں موجود کسی بھی شق کے باوجود، کمیشن اس دفعہ کے ذیلی دفعہ (1) کے تحت نوٹیفکیشن کے اجرا کے بعد کسی بھی وقت، مذکورہ نوٹیفکیشن میں اعلان کردہ انتخابی پروگرام میں انتخابات کے مختلف مراحل کے لیے ایسی ترمیم کر سکتا ہے، یا اس ایکٹ کے مقاصد کے لیے اپنی رائے میں (جس کی وجوہات تحریری طور پر درج کرنا لازم ہوگا) ضروری ہونے کی صورت میں، نئی پولنگ تاریخ یا تاریخوں کے ساتھ نیا انتخابی پروگرام جاری کر سکتا ہے۔
اسکا Proviso یہ کہتا ہے کہ کمیشن اس ذیلی دفعہ کے تحت انتخابی پروگرام میں کی جانے والی کسی بھی ترمیم سے صدرِ مملکت کو آگاہ کرے گا۔ یہاں صدر سے permission لینے کی کوئی بات نہیں ہے اور نا ہی سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی کوئی بات درج ہے. یہ دو provision جنرل الیکشن کے حوالے سے ہے اور الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ جنرل الیکشن کے شیڈول تبدیل کر سکتا ہے.
جو واضح طور پر الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ دفعہ 57 کے تحت جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے بعد کسی بھی وقت انتخابی پروگرام کے مختلف مراحل میں ترمیم کر سکتا ہے یا نئی پولنگ تاریخ کے ساتھ نیا انتخابی پروگرام جاری کر سکتا ہے، بشرطیکہ وجوہات تحریری طور پر ریکارڈ کی جائیں۔ اس سیکشن کے پروائزو میں صرف یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ ایسی کسی بھی ترمیم سے صدرِ مملکت کو آگاہ کیا جائے گا۔ یہاں نہ تو صدر سے اجازت لینے کی کوئی شرط موجود ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں سے مشاورت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس قانونی پس منظر میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جنرل انتخابات کے شیڈول میں تبدیلی یا التوا کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس موجود تھا اور اس کا استعمال قانون کے دائرے میں آتا ہے۔ اب اگر بلدیاتی انتخابات کے سوال پر آئیں تو معاملہ اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان اپنے حلف میں اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ اپنے فرائض حکومت گلگت بلتستان آرڈر 2018 اور قانون کے مطابق، دیانتداری اور بلاخوف و رعایت انجام دے گا۔ یہی حلف اس کے تمام آئینی و قانونی اختیارات اور ذمہ داریوں کی بنیاد بنتا ہے۔ گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے آرٹیکل 114 – بلدیاتی حکومت.
"(1) حکومت قانون کے ذریعے ایک بلدیاتی حکومت کا نظام قائم کرے گی اور سیاسی، انتظامی اور مالی ذمہ داریاں اور اختیارات بلدیاتی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرے گی۔
(2) بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات الیکشن کمیشن کے ذریعے کرائے جائیں گے”
بلدیاتی حکومت کے قیام اور انتخابات کے حوالے سے بالکل غیر مبہم ہے۔ اس میں صاف لکھا ہے کہ حکومت قانون کے ذریعے بلدیاتی نظام قائم کرے گی اور سیاسی، انتظامی و مالی اختیارات منتخب بلدیاتی نمائندوں کو منتقل کرے گی، اور یہ کہ بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات الیکشن کمیشن کے ذریعے کرائے جائیں گے۔ یہاں صوبائی حکومت سے مشاورت یا اس کی مرضی کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ ذمہ داری براہِ راست الیکشن کمیشن پر عائد کی گئی ہے۔ اسی تسلسل میں الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 219 سے 229 تک بلدیاتی انتخابات کے لیے تفصیلی فریم ورک دیا گیا ہے۔ سیکشن 219 خاص طور پر اس ذمہ داری کو واضح کرتا ہے جو کہ کچھ اس طرح ہے.
219۔ انتخابات کے انعقاد کے لیے کمیشن
(1) کمیشن متعلقہ بلدیاتی قانون اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد کے مطابق صوبہ، چھاؤنیوں یا اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری میں بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات کرائے گا۔
(2) ذیلی دفعہ (1) میں موجود کسی بھی بات کے باوجود، صوبہ، چھاؤنیوں یا اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری میں بلدیاتی حکومتوں کے براہِ راست انتخابات کے لیے ووٹنگ کا طریقہ وہی ہوگا جو اس ایکٹ کے تحت اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے فراہم کیا گیا ہے۔
(3) ذیلی دفعہ (4) کے تابع، کمیشن وفاقی یا صوبائی حکومت سے مشاورت کے بعد اس تاریخ یا تاریخوں کا اعلان کرے گا جن پر صوبہ، چھاؤنی، اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری یا اس کے کسی حصے میں بلدیاتی حکومت کے انتخابات منعقد کیے جائیں گے۔
(4) کمیشن صوبہ، چھاؤنی یا اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری میں بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم ہونے کے ایک سو بیس (120) دن کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات کرانے کا پابند ہوگا۔
(5) الیکشن کمیشن اس باب کے تحت انتخابات کا انعقاد اور تنظیم کرے گا اور ایسے انتظامات کرے گا جو ضروری ہیں تاکہ انتخابات ایمانداری، انصاف، شفافیت کے ساتھ اور قانون کے مطابق کرائے جائیں اور بدعنوانی اور غیر قانونی رویّوں سے محفوظ رہیں.
مزکورہ بالا تمام provisions سے ظاہر ہے کہ کمیشن بلدیاتی انتخابات کرائے گا، ووٹنگ کا طریقہ اسمبلی انتخابات جیسا ہوگا، انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا جائے گا اور سب سے اہم یہ کہ بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم ہونے کے 120 دن کے اندر اندر انتخابات کرانا کمیشن کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے۔ اسی باب کے تحت یہ اصول بھی طے کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کو ایمانداری، انصاف، شفافیت اور قانون کے مطابق کرانے کے لیے تمام ضروری انتظامات کرے گا اور بدعنوانی کو روکے گا۔ اگر ان دفعات کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کرانے کی بنیادی، مرکزی اور فیصلہ کن ذمہ داری الیکشن کمیشن کے پاس ہے، نہ کہ صوبائی حکومت کے پاس۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2014 بھی اسی مؤقف کی تائید کرتا ہے۔ اس ایکٹ کے سیکشن 19 بھی الیکشن کمشنر کو اختیار دیتا ہے. اسکا سب سیکشن (1) کہتا ہے (1) "دفتر چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان بلدیاتی کونسل کے انتخابات کروائے گا”.
اس میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ دفتر چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان بلدیاتی کونسل کے انتخابات کروائے گا۔ اس طرح آئینی آرڈر، وفاقی انتخابی قانون اور مقامی بلدیاتی قانون، تینوں ایک ہی نکتے پر متفق نظر آتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ ان تمام قوانین کے عمیق مطالعے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں تاخیر یا ان کا نہ ہونا کسی قانونی خلا کا نتیجہ نہیں بلکہ سیاسی عدم دلچسپی اور بدنیتی کا شاخسانہ ہے۔ 2004 سے اب تک تقریباً 21 سال گزر چکے ہیں۔ اس دوران پانچ سال پیپلز پارٹی، پانچ سال مسلم لیگ (ن)، تین سال تحریک انصاف اور دو سال مخلوط حکومت رہی، مگر کسی بھی دور میں سنجیدگی کے ساتھ بلدیاتی انتخابات کرانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتیں مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے سے گریز کرتی رہی ہیں، کیونکہ مضبوط بلدیاتی نظام اختیارات اور وسائل کو گراس روٹ لیول تک منتقل کر دیتا ہے، جو روایتی سیاسی اجارہ داری کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان میں اس رویّے کے نتائج اور بھی سنگین ہیں۔ بلدیاتی فنڈز کی خرد برد، مقامی سطح پر قیادت کے ابھرنے کو روکنا اور عوامی مسائل کو نچلی سطح پر حل ہونے سے باز رکھنا، یہ سب اسی بدنیتی کا حصہ رہے ہیں۔ اگر آج بھی بلدیاتی انتخابات کو مزید موخر کیا گیا تو یہ خدشہ بے بنیاد نہیں کہ آنے والی منتخب صوبائی حکومت مختلف حیلے بہانوں سے اس عمل کو مزید 21 سال تک ٹال دے۔ اعداد و شمار خود بلدیاتی نظام کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ میونسپل کارپوریشن وارڈز کی کل نشستیں 246 ہیں، میونسپل کمیٹی وارڈز 223، ٹاؤن کمیٹی وارڈز 54، یونین کونسلز کے 1029 وارڈز اور ضلع کونسلز کی 215 نشستیں ہیں، یوں بلدیاتی نمائندوں کی مجموعی تعداد 1767 بنتی ہے۔ یہ 1767 منتخب نمائندے اگر محلہ، گلی، گاؤں اور یونین لیول پر عوامی خدمت انجام دیں تو یقیناً عوامی مسائل میں نمایاں کمی آ سکتی ہے۔ اس کے برعکس صوبائی اسمبلی کے صرف 24 ارکان گزشتہ دو دہائیوں سے حقیقی مقامی نمائندگی کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے ہیں۔ یہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ اس بلدیاتی نظام میں خواتین کو خاطر خواہ نمائندگی دی گئی ہے۔ کل 1714 نشستوں میں سے 437 نشستیں خواتین کے لیے مخصوص ہیں، جو 33 فیصد بنتی ہیں۔ یہ پہلو نہ صرف سماجی شمولیت بلکہ جمہوری نظریات، خصوصاً شراکتی جمہوریت (Participatory Democracy) اور نچلی سطح کی حکمرانی (Grassroots Governance) کی عملی شکل ہے۔ سیاسی نظریات کے مطابق مضبوط بلدیاتی نظام ریاست اور عوام کے درمیان فاصلے کم کرتا ہے، احتساب کو بہتر بناتا ہے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو ممکن بناتا ہے۔
اگر یہ دلیل دی جائے کہ صوبائی حکومت سے مشاورت ضروری تھی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ مشاورت مقامی حکومتوں کی مدت پوری ہونے کے بعد 120 دن کے اندر کیوں نہ کی گئی؟ وہ 120 دن آج سے 21 سال پہلے ختم ہو چکے ہیں۔ آج مشاورت کے نام پر تاخیر دراصل قانون کی روح کے منافی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان کے ساتھ اس خطے کے تقریباً 25 لاکھ عوام کھڑے ہیں۔ یہ موقع ہے کہ وہ غریب عوام کی دعائیں سمیٹیں اور مئی یا جون جیسے مناسب موسم میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنائیں۔ اگر بلدیاتی انتخابات کو جنرل انتخابات کے بعد پر چھوڑ دیا گیا تو خدشہ ہے کہ یہ معاملہ ایک بار پھر غیر معینہ مدت کے لیے التوا کا شکار ہو جائے گا۔ جمہوریت کا تقاضا یہی ہے کہ اقتدار نچلی سطح تک منتقل ہو، عوامی نمائندگی محض نعروں تک محدود نہ رہے اور بلدیاتی نظام کو اس کی آئینی، قانونی اور تاریخی اہمیت کے مطابق فعال کیا جائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Share post:

Subscribe

spot_imgspot_img

Popular

More like this
Related

پاکستان اور لیبیا کے مابین4.6 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کا معاہدہ

پاکستان نے لیبیا کی مشرقی فورس لیبین نیشنل آرمی...

امریکا اور بھارت کا خفیہ جوہری کھیل جنوبی ایشیائی خطے کیلئے کتنا خطرناک؟

تحریر، عارف کاظمی ہمالیہ کے برف پوش پہاڑوں میں چھپے...

پاکستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم کی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے جی ایچ کیو میں ملاقات

چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر...