بھارتی میڈیا کے مطابق دھماکا لال قلعہ کے قریب ایک پارکنگ ایریا میں کھڑی گاڑی میں ہوا، جس کے بعد کئی گاڑیاں آگ کی لپیٹ میں آ کر تباہ ہو گئیں۔
واقعے کے فوراً بعد علاقے میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا اور پولیس و امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں۔ اورزخمیوں کو قریبی اسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے
واقعے کے فورا بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر تحقیقات شروع کر دی ہیں تاکہ دھماکے کی نوعیت اور محرکات معلوم کیے جا سکیں۔

عینی شاہدین کے مطابق دھماکہ ممکنہ طور پر سی این جی سلنڈر پھٹنے کے باعث ہوا جس سے اردگرد کے علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔
ایک عینی شاہد دھرمندر نے بتایا کہ وہ دھماکے کے وقت مخالف سمت سے گزر رہا تھا، اس نے گاڑی کے اندر چار جلی ہوئی لاشیں دیکھیں جبکہ باہر دو افراد ہلاک اور ایک زخمی تھا۔

بتایا گیا ہے کہ دھماکے والی گاڑی سفید رنگ کی ماروتی تھی جس کی نمبر پلیٹ ہریانہ کے محمد ندیم کے نام پر تھی۔
عینی شاہد کے مطابق حادثے کے بعد میڈیا اور حکومتی بیانیے میں تضاد سامنے آیا ہے۔بعض میڈیا ادارے گاڑی کے ماڈل اور مالک کے نام کو لے کر متضاد دعوے کر رہے ہیں۔
بھارتی میڈیا اور حکام کے الگ الگ بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر گاڑی میں موجود بیشتر افراد خود ہی ہلاک ہوئے تو یہ کسی منصوبہ بند دہشت گرد حملے کی بجائے حادثہ معلوم ہوتا ہے۔ادھر مودی حکومت اور بھارتی میڈیا پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ واقعے کی حقیقت جاننے کے بجائے اپنی مرضی کی کہانی پیش کر رہے ہیں


