اسلام آباد: سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے وکیل بیرسٹر میاں علی اشفاق نے دوٹوک انداز میں اس تاثر کو مسترد کر دیا ہے کہ ان کے مؤکل سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف کسی بھی مقدمے میں سرکاری گواہ بننے جا رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے میڈیا اور سیاسی حلقوں میں گردش کرنے والی تمام خبریں محض قیاس آرائی پر مبنی اور مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔
دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر میاں علی اشفاق نے واضح کیا کہ ان اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں جن میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ فیض حمید عمران خان کے خلاف گواہی دینے پر غور کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ تمام باتیں حقائق کے منافی ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
ان کی یہ وضاحت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب بعض وفاقی وزراء اور اسٹیبلشمنٹ سے قربت کے حوالے سے معروف سینیٹر فیصل واوڈا متعدد بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی عمران خان کے خلاف سرکاری گواہ بنیں گے۔
مزید برآں، عمران خان اور فیض حمید کے درمیان مبینہ گٹھ جوڑ کے حوالے سے بھی مختلف حلقوں میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں، خاص طور پر 9 مئی 2023 کے پرتشدد واقعات کے تناظر میں، تاہم بیرسٹر میاں علی اشفاق نے ان تمام دعوؤں کو سرکاری سرپرستی میں تشکیل دیا گیا بیانیہ قرار دیا جو مذکورہ واقعات کے بعد بار بار دہرایا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی عندیہ دیا کہ انہیں بطور حقیقت معلوم ہے کہ فیض حمید کے بانی پی ٹی آئی کے خلاف سرکاری گواہ بننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ قیاس آرائیاں اس وقت مزید شدت اختیار کر گئیں جب حال ہی میں فوجی عدالت کی جانب سے فیض حمید کو 14 سال قید کی سزا سنائی گئی، جس کے بعد سیاسی بیانات اور الزامات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
وفاقی کابینہ کے سینئر ارکان، وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ، متعدد بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات عمران خان اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان ایک منظم منصوبے کا نتیجہ تھے، تاہم ان دعوؤں کے باوجود فوج کے میڈیا ونگ آئی ایس پی آر نے اب تک اپنی کسی باضابطہ بریفنگ میں عمران خان اور فیض حمید کے درمیان کسی گٹھ جوڑ کی تصدیق نہیں کی۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حال ہی میں جب حکومت کے ترجمان اور وزیر اطلاعات سے دی نیوز نے یہ سوال کیا کہ فیض حمید اور عمران خان کے تعلقات سے متعلق الزامات کسی سول یا فوجی تحقیقات کے نتائج پر مبنی ہیں یا محض قرائن پر، تو انہوں نے اس سوال کا براہِ راست جواب دینے سے گریز کیا اور اس معاملے پر آئی ایس پی آر سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا، جس کے بعد اس معاملے پر ابہام مزید بڑھ گیا ہے۔


