سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پاکستان میں کرپشن اور خراب گورننس سے متعلق آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اداروں سے سخت سوالات کیے اور کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا، جس میں اراکین نے آئی ایم ایف کی رپورٹ میں شامل 5300 ارب روپے کی مبینہ کرپشن اور مختلف اداروں میں سامنے آنے والے بڑے اسکینڈلز پر سخت ردعمل دیا۔
سینیٹر دلاور خان نے سوال اٹھایا کہ رپورٹ میں جن اداروں کا ذکر ہے، ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ اور کیا حکومت اتنی بڑی رقم کی کرپشن کے دعوے کو تسلیم کرتی ہے؟
وزارت خزانہ کے حکام نے بتایا کہ حکومت نے 2024 میں آئی ایم ایف سے گورننس میں بہتری کے لیے معاونت مانگی تھی اور رپورٹ کی سفارشات کی روشنی میں ایکشن پلان بنانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق رپورٹ میں کچھ تبدیلیاں مانگی گئی تھیں، اور وزیراعظم کی منظوری کے بعد اسے وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر جاری کر دیا گیا۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے پوچھا کہ کیا وزارت خزانہ مس مینجمنٹ، خراب گورننس اور کرپشن کے الزامات تسلیم کرتی ہے؟ جبکہ سینیٹر دلاور خان نے پھر سوال دہرایا کہ کیا وزارت خزانہ مانتی ہے کہ 5300 ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے؟ اسے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟
وزارت خزانہ حکام نے جواب دیا کہ رپورٹ میں کوئی نئی بات نہیں، حکومت پہلے ہی انہی مسائل پر کام کر رہی ہے۔
اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ رپورٹ میں سنگین نوعیت کے الزامات ہیں جن سے سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔
اراکین نے ایف بی آر، سی ڈی اے اور دیگر محکموں میں کرپشن کے واقعات کا بھی حوالہ دیا۔ سینیٹر عبدالقادر نے بتایا کہ ایف بی آر افسران کی رشوت پر لڑائی اور فائرنگ کا کیس ہو یا موٹروے کے اربوں روپے کے فراڈ کا معاملہ—کسی پر کارروائی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ "مافیاز ملک چلا رہے ہیں”۔
کمیٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ کرپشن کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے، جبکہ رکن کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ "اگر آئی ایم ایف نہ ہوتا تو یہ رپورٹ سامنے ہی نہ آتی۔” انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس اہم معاملے پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی بریفنگ لی جائے۔
اجلاس میں سہولت کاری کونسل (SIFC) کی کارکردگی، سرمایہ کاری میں رکاوٹوں اور ٹیکس تنازعات کے حل کے طریقہ کار پر بھی بحث ہوئی۔
ایف بی آر حکام نے بتایا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے بعد ٹیکس تنازعات کے لیے نئے اے ڈی آر (ADR) نظام کی منظوری دی گئی ہے، جس کے تحت ریٹائرڈ ججز کی نگرانی میں 90 روز میں فیصلے ہوں گے۔تفصیلی غور کے بعد قائمہ کمیٹی نے انکم ٹیکس تھرڈ امینڈمنٹ بل 2025 متفقہ طور پر منظور کر لیا۔


