غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ ایک بار پھر شدت اختیار کر گیا، جہاں اسرائیلی افواج نے امداد کے حصول کے لیے جمع فلسطینی شہریوں پر براہِ راست فائرنگ کرتے ہوئے کم از کم 25 افراد کو شہید کر دیا۔ یہ دلخراش واقعہ غزہ شہر کے جنوبی حصے میں واقع نیٹرازیم کوریڈور کے قریب اُس مقام پر پیش آیا، جہاں خوراک کی تقسیم جاری تھی۔ اس کے علاوہ خان یونس کے قریب المواسی علاقے میں ایک خیمہ بستی کو اسرائیلی ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا، جس میں کم از کم 4 مزید فلسطینی شہید ہوئے، جن میں زیادہ تر بے گھر افراد شامل تھے۔
دوسری جانب اسرائیل نے غزہ کے لیے جانے والی ایک امدادی کشتی کو بھی راستے میں روک لیا، جس پر سوار 12 کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔ ان میں معروف سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی شامل تھیں۔ اسرائیلی حکام نے 4 کارکنوں کو، بشمول تھنبرگ، ملک بدر کر دیا، جبکہ باقی 8 کارکنوں کو اسرائیل چھوڑنے سے انکار پر زیرِ حراست رکھا گیا ہے۔ گریٹا تھنبرگ نے اسرائیلی حکومت پر الزام عائد کیا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو عالمی سمندر سے "اغوا” کیا گیا اور غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 55 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 27 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ بنیادی انسانی ضروریات تک رسائی نہ ہونے کے باعث ایک سنگین انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔
اسی دوران، اسرائیلی وزرا ایتامار بن گویر اور بیزالیل سموٹریچ پر آسٹریلیا، برطانیہ، ناروے، نیوزی لینڈ اور کینیڈا کی جانب سے پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ ان پر مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے اور غیر قانونی بستیوں کی حمایت کا الزام ہے۔ اسرائیل نے ان عالمی اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں "شرمناک” قرار دیا، تاہم آسٹریلیا نے اپنی پوزیشن کا دفاع کیا اور کہا کہ اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنی چاہیے۔
ادھر امریکا میں تعینات اسرائیلی حامی امریکی سفیر مائیک ہکابی نے فلسطینی ریاست کے قیام کو "ہماری زندگی میں ممکن نہ ہونے” کا بیان دے کر ایک نیا سفارتی تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک فلسطینی معاشرے میں "بنیادی ثقافتی تبدیلیاں” نہیں آتیں، ریاست فلسطین کا قیام ایک غیر حقیقت پسندانہ تصور ہے۔