پشاور میں میڈیا بریفنگ کے دوران انہوں نے بتایا کہ ان کا مقصد کے پی کے بہادر عوام کے درمیان بیٹھ کر دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں ان کا احترام پیش کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں 14,500 سے زائد آپریشن کیے گئے اور اس سال مارے جانے والے خارجی عناصر کی تعداد گزشتہ دس سالوں سے زیادہ ہے۔ ان کے بقول دہشت گردی برقرار رہنے کے پیچھے سوچے سمجھے منصوبے ہیں جن میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جگہ فراہم کی گئی۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ پاک فوج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور سب کو مل کر اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 2014 میں آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت نے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا تھا، تاہم اس پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں اور انہیں بھارت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے، علاوہ ازیں امریکی انخلا کے بعد چھوڑے گئے ہتھیار بھی دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گئے۔انہوں نے کہا کہ ہر مسئلے کا حل مذاکرات نہیں ہو سکتا اگر مذاکرات ہی کافی ہوتے تو جنگیں منعقد نہ ہوتیں اور اس پس منظر میں دہشت گردی کے خاتمے کا فیصلہ سیاستدانوں اور قبائلی عمائدین نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ 2014 اور 2021 میں یہ فیصلہ ہوا کہ پولیس اور کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ کو مضبوط بنایا جائے گا؛ انہوں نے کے پی کی بہادر پولیس کو سلام پیش کیا مگر نشاندہی کی کہ ان کی تعداد محض 3,200 رکھی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں گورننس کے خلا کو ہمارے سکیورٹی جوان اپنے خون سے پورا کر رہے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل نے زور دیا کہ کسی ایک فرد کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنی ذات کی خاطر ریاست اور عوام کی جان، مال یا عزت کو داؤ پر لگائے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاستدان قابل احترام ہیں، مگر اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کی سیاست ریاست سے بالاتر ہے تو وہ قبول نہیں۔ عوام سے اپیل کی کہ فوج کو گھٹیا بیان بازی اور گمراہ کن پروپیگنڈے سے دور رکھا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ جو بھی فرد یا عہدہ دار دہشت گردوں کی سہولت کاری یا معاونت کرے گا، اس کے لیے راستہ تنگ کر دیا جائے گا کیونکہ پاکستانی قوم متحد ہو کر دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کھڑی ہے۔انہوں نے افغان مہاجرین کے حوالے سے کہا کہ پاکستان نے کئی دہائیوں تک افغان بھائیوں کی میزبانی کی، تاہم اس معاملے کو بھی سیاسی رنگ دینے اور گمراہ کن بیانیہ بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں؛ انہوں نے واضح کیا کہ افغان مہاجرین کی واپسی ریاستی فیصلہ ہے اور اس سوال کو سیاست کا حصہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ دہشت گردی میں مارے گئے بہت سے خوارج کا تعلق افغانستان سے ہے اور آپریشن میں بعض دہشت گردوں سے امریکی ساختہ اسلحہ بھی برآمد ہوا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف بطور اڈہ استعمال کرنے کے شواہد موجود ہیں اور اس سلسلے میں ہر فورم پر آواز اٹھائی گئی اور بات چیت بھی ہوئی۔آخر میں انہوں نے تین واضح آپشنز دیے جن کے ذریعے خارجیوں کے سہولت کار خود کو ثابت کر سکتے ہیں:سہولت کار خوارج کو ریاست کے حوالے کر دیں؛دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر حصہ لیں؛اگر یہ دونوں راستے اختیار نہ کیے گئے تو انہیں ریاستی کارروائی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور اس سے صرف یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کی آماجگاہ نہ بننے دے۔ پاکستان عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے جو ضروری اقدامات ہیں وہ کیے جا رہے ہیں اور آئندہ بھی کیے جائیں گے — اس معاملے پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔
خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ عناصر کا گٹھ جوڑہے,ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری
Date:


